وہ خواب جو حقیقت بن سکتا تھا 1947 میں جب پاکستان وجود میں آیا تو یہ ایک عجیب ملک تھا — دو حصے، مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان، جو ایک دوسرے سے 1600 کلومیٹر کے بھارتی علاقے سے الگ تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اُس وقت ایک تصور پیش کیا تھا: ایک راہداری (Corridor) جو بھارت کے درمیان سے گزر کر دونوں پاکستانوں کو جوڑ دے۔ تاریخ نے یہ خواب پورا نہ ہونے دیا — لیکن آئیے تصور کریں کہ اگر یہ راہداری واقعی بن گئی ہوتی؟ ⸻ 1947–1950 کی دہائی: دوستی کی راہداری اگر یہ راہداری بن جاتی تو 1948 میں ہی ایک نیا راستہ کھلتا — سب کانٹینینٹل فرینڈشپ روٹ۔ ایک تیز رفتار ٹرین “یونٹی ایکسپریس” لاہور، دہلی، کلکتہ اور ڈھاکا کو صرف 18 گھنٹوں میں ملا دیتی۔ جہاں آج سرحدوں پر بندوقیں ہیں، وہاں اسٹیشنوں پر بچوں کی ہنسی سنائی دیتی۔ بھارت ٹرانزٹ فیس سے کماتا، پاکستان اور بنگلہ دیش اپنی مصنوعات برآمد کرتے۔ کروڑوں لوگوں کو روزگار ملتا، راستے بنتے، خواب جڑتے۔ ⸻ 1960–1970 کی دہائی: جنوبی ایشیا کا معاشی کرشمہ یہ راہداری تجارت کی ریڑھ کی ہڈی بن جاتی۔ مغربی پاکستان کے کارخانے مشرقی پاکستان کو مشینری دیتے، بنگلہ دیش چاول اور جُوٹ بھیجتا، بھارت الیکٹرانکس اور دوائیں فراہم کرتا۔ 1970 تک SAARC+ کے نام سے ایک مشترکہ منڈی وجود میں آجاتی — یورپی یونین سے بھی پہلے۔ سیاح بھارت کے تاج محل دیکھنے آتے، پاکستانی مری اور گلگت دکھاتے، بنگلہ دیشی سُنہری مندر دکھاتے۔ فلمی صنعتیں مل کر ساؤتھ وُوڈ (Southwood) کہلاتیں، جو دنیا بھر میں موسیقی اور کہانیاں پھیلاتیں۔ ⸻ 1980–1990 کی دہائی: تیز رفتار ترقی کا زمانہ راہداری اب صرف سڑک نہیں رہتی — یہ محبت اور خوشحالی کی شاہراہ بن جاتی۔ کراچی سے ڈھاکا تک ہائی اسپیڈ ٹرین صرف 12 گھنٹوں میں پہنچ جاتی۔ جنگیں کبھی نہ ہوتیں کیونکہ تجارت دشمنی ختم کر دیتی۔ لاہور اور امرتسر جڑواں شہر بن جاتے، جیسے ہانگ کانگ اور شینزین۔ طلبہ، ڈاکٹر، انجینئر، سب ایک دوسرے کے ملکوں میں تعلیم اور خدمت کرتے۔ کرکٹ دشمنی نہیں بلکہ جشن بن جاتی۔ ⸻ 2000–2020: ساڑک سے SAARC تک 2000 تک جنوبی ایشیا کی اپنی مشترکہ کرنسی بن جاتی — روپیہ یونین۔ سرحدیں نرم ہوتیں، ویزے آسان، محبت عام۔ کراچی ٹیکنالوجی کا دارالحکومت بن جاتا، ڈھاکا فیشن کا، دہلی ثقافت کا۔ مل کر یہ خطہ دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جاتا۔ امن سے تعلیم، آرٹ، ٹیکنالوجی، سب پھلتے پھولتے۔ راہداری نے سیاست نہیں، دلوں کو جوڑ دیا ہوتا۔ ⸻ آج — کیا یہ خواب پھر سے ممکن ہے؟ ہم اُس دنیا میں نہیں رہتے جہاں وہ راہداری بنی تھی، لیکن شاید اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ اگر SAARC دوبارہ جاگ جائے، اگر بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش مل کر کام کریں — تو نیا خواب جنم لے سکتا ہے: • کراچی سے ڈھاکا تک ہائی اسپیڈ ٹرین، • ویزا فری ساؤتھ ایشیا، • مشترکہ AI ریسرچ سینٹرز، • ایک ساتھ شمسی توانائی، پانی، اور ڈیجیٹل ترقی۔ اگر یورپ جنگوں کے بعد ایک ہو سکتا ہے، تو ہم کیوں نہیں — ہم جو ایک زبان، ایک کھانا، ایک دل رکھتے ہیں؟ ⸻ اختتام: دلوں کی راہداری 1600 کلومیٹر کی وہ راہداری شاید ماضی میں خواب بن کر رہ گئی، لیکن اس کا پیغام آج بھی زندہ ہے — جڑنے کا، ملنے کا، امن کا۔ اگر ہم آج یہ راہداری دوبارہ دلوں میں بنالیں، تو برصغیر ایک بار پھر سنہری زمین بن سکتا ہے — جہاں ٹرینیں نہیں، خواب دوڑتے ہوں؛ جہاں سرحد نہیں، صرف محبت ہو۔
وہ خواب جو حقیقت بن سکتا تھا 1947 میں جب پاکستان وجود میں آیا تو یہ ایک عجیب ملک تھا — دو حصے، مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان، جو ایک دوسرے سے 1600 کلومیٹر کے بھارتی علاقے سے الگ تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اُس وقت ایک تصور پیش کیا تھا: ایک راہداری (Corridor) جو بھارت کے درمیان سے گزر کر دونوں پاکستانوں کو جوڑ دے۔ تاریخ نے یہ خواب پورا نہ ہونے دیا — لیکن آئیے تصور کریں کہ اگر یہ راہداری واقعی بن گئی ہوتی؟ ⸻ 1947–1950 کی دہائی: دوستی کی راہداری اگر یہ راہداری بن جاتی تو 1948 میں ہی ایک نیا راستہ کھلتا — سب کانٹینینٹل فرینڈشپ روٹ۔ ایک تیز رفتار ٹرین “یونٹی ایکسپریس” لاہور، دہلی، کلکتہ اور ڈھاکا کو صرف 18 گھنٹوں میں ملا دیتی۔ جہاں آج سرحدوں پر بندوقیں ہیں، وہاں اسٹیشنوں پر بچوں کی ہنسی سنائی دیتی۔ بھارت ٹرانزٹ فیس سے کماتا، پاکستان اور بنگلہ دیش اپنی مصنوعات برآمد کرتے۔ کروڑوں لوگوں کو روزگار ملتا، راستے بنتے، خواب جڑتے۔ ⸻ 1960–1970 کی دہائی: جنوبی ایشیا کا معاشی کرشمہ یہ راہداری تجارت کی ریڑھ کی ہڈی بن جاتی۔ مغربی پاکستان کے کارخانے مشرقی پاکستان کو مشینری دیتے، بنگلہ دیش چاول اور جُوٹ بھیجتا، بھارت الیکٹرانکس اور دوائیں فراہم کرتا۔ 1970 تک SAARC+ کے نام سے ایک مشترکہ منڈی وجود میں آجاتی — یورپی یونین سے بھی پہلے۔ سیاح بھارت کے تاج محل دیکھنے آتے، پاکستانی مری اور گلگت دکھاتے، بنگلہ دیشی سُنہری مندر دکھاتے۔ فلمی صنعتیں مل کر ساؤتھ وُوڈ (Southwood) کہلاتیں، جو دنیا بھر میں موسیقی اور کہانیاں پھیلاتیں۔ ⸻ 1980–1990 کی دہائی: تیز رفتار ترقی کا زمانہ راہداری اب صرف سڑک نہیں رہتی — یہ محبت اور خوشحالی کی شاہراہ بن جاتی۔ کراچی سے ڈھاکا تک ہائی اسپیڈ ٹرین صرف 12 گھنٹوں میں پہنچ جاتی۔ جنگیں کبھی نہ ہوتیں کیونکہ تجارت دشمنی ختم کر دیتی۔ لاہور اور امرتسر جڑواں شہر بن جاتے، جیسے ہانگ کانگ اور شینزین۔ طلبہ، ڈاکٹر، انجینئر، سب ایک دوسرے کے ملکوں میں تعلیم اور خدمت کرتے۔ کرکٹ دشمنی نہیں بلکہ جشن بن جاتی۔ ⸻ 2000–2020: ساڑک سے SAARC تک 2000 تک جنوبی ایشیا کی اپنی مشترکہ کرنسی بن جاتی — روپیہ یونین۔ سرحدیں نرم ہوتیں، ویزے آسان، محبت عام۔ کراچی ٹیکنالوجی کا دارالحکومت بن جاتا، ڈھاکا فیشن کا، دہلی ثقافت کا۔ مل کر یہ خطہ دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جاتا۔ امن سے تعلیم، آرٹ، ٹیکنالوجی، سب پھلتے پھولتے۔ راہداری نے سیاست نہیں، دلوں کو جوڑ دیا ہوتا۔ ⸻ آج — کیا یہ خواب پھر سے ممکن ہے؟ ہم اُس دنیا میں نہیں رہتے جہاں وہ راہداری بنی تھی، لیکن شاید اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ اگر SAARC دوبارہ جاگ جائے، اگر بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش مل کر کام کریں — تو نیا خواب جنم لے سکتا ہے: • کراچی سے ڈھاکا تک ہائی اسپیڈ ٹرین، • ویزا فری ساؤتھ ایشیا، • مشترکہ AI ریسرچ سینٹرز، • ایک ساتھ شمسی توانائی، پانی، اور ڈیجیٹل ترقی۔ اگر یورپ جنگوں کے بعد ایک ہو سکتا ہے، تو ہم کیوں نہیں — ہم جو ایک زبان، ایک کھانا، ایک دل رکھتے ہیں؟ ⸻ اختتام: دلوں کی راہداری 1600 کلومیٹر کی وہ راہداری شاید ماضی میں خواب بن کر رہ گئی، لیکن اس کا پیغام آج بھی زندہ ہے — جڑنے کا، ملنے کا، امن کا۔ اگر ہم آج یہ راہداری دوبارہ دلوں میں بنالیں، تو برصغیر ایک بار پھر سنہری زمین بن سکتا ہے — جہاں ٹرینیں نہیں، خواب دوڑتے ہوں؛ جہاں سرحد نہیں، صرف محبت ہو۔ ❤️
0 Kommentare 0 Anteile 101 Ansichten 0